مالدیپ کے صدر کی دعوت پر سرکاری دورے پر رابطہ عالم اسلامی کے وفد کی سربراہی
مالدیپ کے صدر کی جانب سے آپ کے خدمات کے اعتراف میں جمہوریہ کا اعزازی تمغہ
محترم صدر اور حکومتی ارکان کی موجودگی میں ڈاکٹر العیسی کا انتہاپسندی اور دہشت گردی سے نظریاتی اور الیکٹرانک ذرائع سے سد باب پر لیکچر
ڈاکٹر العیسی کا دفاعی اور خارجہ امور کے رہنماؤں سے ملاقات اور قومی مرکز برائے انسداد دہشت گردی کے امور پر بریفننگ
سیکرٹری جنرل نائب صدر کی موجودگی میں ائمہ ، مفتیان اوریونیورسٹی کی انتظامیہ کو لیکچر دیتے ہوئے:
- اسلامی اعتدال میں ایک زاویہ کے بجائے تمام زاویوں سے چیزوں کو دیکھاجاتاہے اور مصالح اور مفاسد میں توازن کو مد نظر رکھاجاتاہے ۔
ڈاکٹر العیسی کا اعتدال اور انتہاپسندی میں فرق کو سمجھنے کے لئے شریعت اسلامیہ کی نصوص کو صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت پرزور: معيار رسول الله اور صحابہ کرام کی تطبیق اور مقاصد شریعت کا حصول ہے
ڈاکٹر العیسی اختلافی مسائل کو ردّ کرنے کے رجحان کے خطرات سے خبردارکرتے ہوئے: اس سے انتہاپسند خیالات جنم لے سکتے ہیں جو متشدد اور دہشت گرد تنظیمات کا روپ دھارسکتی ہیں
مالے (مالدیپ):
جمہوریہ مالدیپ کے صدر محترم کی دعوت پر رابطہ عالم اسلامی کا وفد سیکرٹری جنرل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی کی قیادت میں مالدیپ پہنچا جہاں دار الحکومت مالے آمد پر آپ کا استقبال وزیر مملکت برائے خارجہ امور جناب احمد خلیل اور دیگر اعلی حکام نے کیا۔دار الحکومت ائرپورٹ پر سرکاری استقبالیہ کے بعد ڈاکٹر العیسی اور آ پ کے ہمراہ وفد صدارتی محل پہنچا جہاں جمہوریہ مالدیپ کے صدر جناب ابراہیم صالح نے ان کا استقبال کیا۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کیا اور صدر محترم کی خواہش پر دونوں رہنماؤں نے مالدیپ میں خطے میں امدادی سہولیات پہنچانے کے لئے علاقائی دفتر کھولنے کا اعلان کیا۔
اس موقع پر مالدیپ کی روایات کی عکاسی کرنے والی ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں وزرا اور ارکان پارلیمان پر مشتمل اعلی عہدیدران موجود تھے، جمہوریہ مالدیپ کے صدر نے ڈاکٹر محمد العیسی کو اسلامی اتحاد کے لئے کاوش اوردنیا میں ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے لئے آپ کی خدمات کے اعتراف میں جمہوریہ کے اعزازی تمغہ سے نوازا۔
اس کے بعد سیکرٹری جنرل ڈاکٹر العیسی نے انتہاپسندی اور دہشت گردی سے نظریاتی اور الیکٹرانک ذرائع سے نمٹنے کے طریقوں پر ایک خصوصی لیکچر دیا جس میں مالدیپ کے صدر،نائب صدر،وزراء،پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے ارکان،قومی دفاع اور پولیس کے ذمہ داران، متعدد اعلی حکام،محققین اور موضوع سے دلچسپی رکھنے والے افرد شریک تھے۔
عزت مآب ڈاکٹر محمد العیسی نے وزیردفاع محترمہ ماریہ احمد دیدی کی سرپرستی میں وزارت دفاع کے عہدیداران سے بھی ملاقات کی جہاں فریقین نے انتہاپسندی سے نمٹنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔ڈاکٹر العیسی نے قومی مرکز برائے انسداد دہشت گردی اور اس کی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیا۔
بعد ازاں سیکرٹری جنرل نے وزیر خارجہ جناب احمد خلیل کی سرپرستی میں وزارت خارجہ کے عہدیداران کے ساتھ ایک مفصل ملاقات کی، جس کے بعد دنوں رہنماؤں نے اس دورے کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لئے مشترکہ پریس کانفرنس کی جسے سرکاری ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے نشر کیا ۔
دورے کے پروگرام کے ضمن میں عزت مآب ڈاکٹر العیسی نے وزیر مذہبی امور جناب ڈاکٹر احمد زاہر سے بھی ملاقات کی اور ملاقات میں مشترکہ دلچسپی کے متعدد موضوعات پر تبادلۂ خیال کیا۔ڈاکٹر العیسی نے دار الحکومت مالے میں اسلامی مرکز کا بھی دورہ کیا اور آپ کو مرکز کی سرگرمیوں اور نمایاں خدمات کے بارے میں بریفنگ دی گئی ۔
ڈاکٹر العیسی نے وزارت مذہبی امور کے مرکزی دفتر میں لیکچر دیا جس کا عنوان تھا ”عسکریت پسندیاور نفرت انگیز بیانئے کا سدّباب: نوجوان کیسے اپنی حکومتوں کا تعاون کرسکتے ہیں؟ “ اس تقریب میں نائب صدر ،اور علاقے کے ائمہ ،مفتیان، متعدد سیاسی اورتعلیمی شخصیات،اور نوجوان طبقہ اور جامعہ کے طلبہ نے شرکت کی ۔اس تقریب کو سرکاری ٹیلی ویژن سمیت متعدد چینلز نے نشر کیا اور سرکاری سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اسےبراہ راست نشر کیا گیا ۔لیکچر کے بعد نوجوانون کے ذہنوں میں اسلامی اور عالمی موضوعات پر موجود اہم مسائل پر گفت گو کے لئے کھلی نشست کا اہتمام بھی ہوا ۔
ڈاکٹر العیسی نے لیکچر میں اعتدال اور انتہاپسندی میں فرق کو سمجھنے کے لئے شریعت اسلامیہ کے نصوص کو صحیح طور پرسمجھنے کی ضرورت پر زوردیا ۔انہوں نے کہاکہ نصوص کے فہم کا سب سے پہلا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام خصوصاً خلفائے اربعہ جن کی پیروی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے یہ دیکھنا ہے کہ انہوں نے ان نصوص کی کیسے تطبیق کی ہے ۔اسی تناظر میں انہوں نے زوردیتے ہوئے کہاہے کہ اسلامی اعتدال میں ایک زاویہ کے بجائے تمام زاویوں سے چیزیوں کو دیکھاجاتاہے اور مصالح اور مفاسد میں توازن کو مد نظر رکھاجاتاہے ۔
انہوں نے مزیدکہاکہ دوسرا معیار یہ ہے کہ یہ فہم شریعت اسلامیہ کے مقاصد سے مطابقت رکھتی ہو، جس میں سرفہرست بندوں پر رحم، ان کے ساتھ ہمدردی اور ان کے دلگیری کرنا ہے ۔انہوں نے توجہ دلاتے ہوئے کہاکہ شریعت کے عدل ،حکمت اور بندوں پر رحمت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو دعوت کا حکم دیا ہے اور انہیں ہدایت دینےکی ذمہ داری نہیں سونپی ہے ۔
ڈاکٹر العیسی نے انفرادی فتاوی جات کی سنگینی سے خبردار کرتے ہوئے ایسے فتاوی کے ادارے کی قیام کی ضرورت پر زوردیاہے جن میں علماء اور محققین موجود ہوں۔اس ضمن میں انہوں نے محل وقوع ، مقامی حالات اور رسم و رواج سے ناواقفیت کی وجہ سے بیرون ملک سے آنے والے فتاوی جات سے گریز کا مطالبہ بھی کیا کیونکہ ہر ملک کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر العیسی نے اختلافی مسائل کو ردّ کرنے کے رجحان کے خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہاکہ وقت گزرنےکے ساتھ ایسے رجحانات انتہاپسند خیالات میں بدل کر پرتشدد اور دہشت گرد تنظیمات کا روپ دھارلیتی ہیں جس کا تجربہ ہمیں القاعدہ، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی صورت میں ہوا ہے ۔
ڈاکٹر محمد العیسی نے اپنے لیکچر کا اختتام اس بات پر اشارہ کرتے ہوئے کیاکہ اسلام کی اعلی اقدار جو اس کے پھیلنے کے اہم اسباب اور جس کی وجہ سے لوگوں نےاسے قبول کیا ہے ، وہ ایسا دین ہے جس نے انسانیت کا احترام کیاہے ،اور انسانی تاریخ میں مذہبی تنوع کے تناظر میں ان کی آزادی اور جائز حقوق کو تسلیم کیا ہے۔اس طرح اس نے انسانیت کو انسانی اور فکری غلامی سے نجات دلائی ۔
انہوں نے کہاکہ اسلام نے انسانوں کے درمیان اختلاف اور تنوع کے حکمتِ ربّانی کو اجاگر کیا ہے اور شریعت اسلامیہ نے رواداری اور بقائے باہمی بلکہ ان کے احترام اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے ۔یہ وہ عظیم مفاہیم ہیں جو میثاق مدینہ منورہ یا دستور مدینہ منورہ میں موجود ہیں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی معاشرے میں مذہبی تنوع کے بارے میں ایک دستوری صورت میں تیار فرمایاتھا ۔
انہوں نے کہاکہ اسی منہج نبوی کی روشنی میں میثاق مکہ مکرمہ کا اجراء ہوا ہے جس پر دنیا بھر کے 1200 سے زائد علمائے کرام ومفتیان عظام اور 4500 سے زائد اسلامی مفکرین نے دستخط فرمائے اور اس دستاویز نے انسانی بقائے باہمی کے ان اصولوں کو متعین کرتے ہوئے تنازعات اور تہذیبی تصادم کے خطرات سے خصوصاً اہل مذاہب اور تہذیب کے درمیان خبردار کیا ہے ۔