رابطہ عالم اسلامی اور ملائیشین حکومت کی شراکت سے منعقدہ بین الاقوامی سربراہی اجلاس میں دنیا بھر کے 400 ممتاز مذہبی قائدین کی شرکت
غزہ کی نسل کشی کی مذمت اور دو ریاستی حل کے بین الاقوامی اعلامیے کی بھرپور تائید
دنیا آج بے بسی اور اعتماد میں کمی کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ انور ابراہیم
غزہ کا بحران عالمی برادری کی عدل و انسانیت سے بے رغبتی کو ظاہر کرتا ہے۔ انور ابراہیم
عالمی امن محض ایک آپشن نہیں بلکہ بقاء اور بین الاقوامی چارٹر کی ساکھ سے جڑی ناگزیر ضرورت ہے۔ ڈاکٹر العیسی
یہ سربراہی اجلاس مذہبی تنوع کے قائدین کو ان کی عالمی اقدار کی دعوت کی سچائی کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے۔ ڈاکٹر العیسی
دنیا بھر میں ادیان کے ماننے والوں کے دلوں پر اثر ڈالنے میں مذہبی قائدین کا کلیدی کردار ہے۔ ڈاکٹر العیسی
غزہ میں جاری قتل عام، قحط اور تباہی انسانی حقوق کے اصولوں کی خطرناک ترین پامالی ہے۔ ڈاکٹر العیسی
کوالالمپور:
دنیا بھر کی مختلف مذاہب کی قیادتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومتیں اور مذہبی رہنما غزہ میں جاری نسل کشی، بھوک اور تباہی کی کھلے الفاظ میں مذمت کریں، اور ہر ممکن طریقے سے فوری و مؤثر مداخلت کریں تاکہ اس قتلِ عام کو روکا جا سکے، ساتھ ہی اسرائیلی قابض حکومت پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ اس انسانی المیے کا خاتمہ ہو۔ شرکاء نے کہا کہ یہ اندوہناک سانحہ، جس نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، بین الاقوامی قانون اور انسانی قانون کے غیر مؤثر ہونے اور عالمی احتسابی نظام کی معطلی کی وجہ سے رونما ہوا ہے۔
یہ مطالبات کوالالمپور (ملائیشیا) میں منعقدہ مذہبی قیادت کی دوسری عالمی سربراہی کانفرنس کے اختتام پر سامنے آئے۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا: ”تنازعات کے حل میں مذہبی رہنماؤں کا کردار“، جسے ملائیشیا وزارت عظمی کے دفتر نے رابطہ عالم اسلامی کے اشتراک سے منعقد کیا۔ کانفرنس کا افتتاح وزیرِاعظم ملائیشیا جناب انور ابراہیم نے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور چیئرمین مسلم علماء کونسل عزت مآب شیخ محمد بن عبد الکریم العیسی کے ہمراہ کیا۔ اجلاس میں دنیا بھر سے 400 نمایاں مذہبی رہنماؤں اور شخصیات نے شرکت کی۔
مذہبی قائدین نے اپنے اعلامیے میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی قابض حکومت کو اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے معاہدات کا پابند بنائے، فلسطینی عوام کی مشکلات ختم کرے، اور انہیں ان کے جائز حقوق فراہم کرے، جن میں ایک آزاد ریاست کا قیام بھی شامل ہے، جو متعلقہ بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق ہو۔
اس تناظر میں، انہوں نے وزراء کی سطح پر منعقد ہونے والی اس اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس کی حتمی دستاویز کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا جس کا مقصد مسئلہ فلسطین کو پرامن طریقوں اور دو ریاستی حل کے ذریعے طے کرنا تھا۔ اس کانفرنس کی سرپرستی اور صدارت مملکت سعودی عرب نے جمہوریہ فرانس کے اشتراک سے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں کی تھی۔ رہنماؤں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے ممالک اور اپنے زیر اثر علاقوں میں اس دستاویز کے لیے سیاسی اور سفارتی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے تمام روحانی اور سماجی اثر و رسوخ کو بروئے کار لائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ پُرعزم ہیں کہ ایک ایسا اخلاقی فریم ورک پیش کریں جو مسلسل بڑھتے ہوئے تنازعات کے حل میں کردار ادا کرے، کیونکہ یہ تنازعات انسانی یکجہتی کی بنیاد کو کمزور کر رہے ہیں اور نفرت و تفرقے کو ہوا دے رہے ہیں۔
کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران ملائیشیا کے وزیرِاعظم، جناب انور ابراہیم نے عالمی مذہبی قیادت کو خوش آمدید کہا اور امن، عدل اور انسانیت کے لیے ان کے عزم پر گہری قدردانی اور شکر گزاری کا اظہار کیا۔
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں زور دیتے ہوئے کہاکہ تمام مذاہب کا بنیادی مقصد انسانیت کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ :جی ہاں، اختلافات موجود ہیں، میں مسلمان ہوں اور اسلام پر عمل کرتا ہوں، مگر میں جانتا ہوں کہ اسلام ہمیں ”رحمۃ للعالمین“یعنی سب کے لیے رحمت سکھاتا ہے۔ یہ رحمت اعتدال اور توازن پر مبنی ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا کہ تمہیں امتِ وسط بنایا گیا۔ اسی طرح میں جانتا ہوں کہ قرآن کا ارشاد ’لتعارفوا‘ صرف برداشت پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ یہ ایک گہری سمجھ اور باہمی اختلافات کے ادراک کی دعوت ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کو ان عناصر کے خلاف متحد ہونا چاہیے جو انسانی قدروں اور مشترکہ اقدار کو رد کرتے ہیں۔ وزیرِاعظم نے مذہبی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ انسانیت کی اصل روح کا دفاع کریں۔
ملائیشین وزیراعظم نے ”تہذیبوں کے تصادم“ جیسے تصادم اور تنازعات کے نظریات کے خطرے سے خبردار کیا، جو تصادم کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ حقیقت میں یہ تصادم جہالتوں کا تصادم ہے، تہذیبوں کا نہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ کی صورتحال تکلیف دہ ہے، اور اشارہ کیا کہ اس بحران نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ عالمی برادری انصاف اور انسانیت کے لیے اپنا جوش و جذبہ کھو چکی ہے۔ انہوں نے کہا: پچھلے پچاس ساٹھ سالوں سے ہم استعمار اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے خلاف لڑ رہے تھے، لیکن غزہ اس کی ایک مثال ہے۔ ہر روز ہم بچوں کا قتل، گھروں اور لوگوں پر بمباری دیکھتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا: ”مذہب ہمیں کیا سکھاتا ہے، اور ہمارے ایمان اور اخلاقی اقدار سے ابھرنے والی ضمیر کی آواز کہاں ہے؟“
رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل، عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد العیسیٰ نے کانفرنس کے شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ کانفرنس ہمارے معاصر تاریخ کے ایک غیر معمولی مرحلے میں منعقد ہو رہی ہے، جس میں متعدد المیوں اور چیلنجز نے شدت اختیار کر لی ہے اور ہمارے عالمی نظام اور اس کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کو متاثر کیا ہے۔
عزت مآب نے اس بات پر زور دیا کہ ہماری دنیا کا امن محض ایک انتخاب نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی ناگزیر ضرورت ہے جو اس کے وجود اور اقوامِ متحدہ کے منشور کی ساکھ سے جڑی ہے۔ انہوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ 26 جون 1945ء کو اقوامِ متحدہ کی اقوام نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچائیں گے—ایسی جنگ جو ایک ہی صدی میں دو بار انسانیت پر ناقابلِ بیان دکھ لائی۔ اسی کے ساتھ، ریاستوں نے یہ بھی عہد کیا کہ وہ عالمی معاہدات اور قوانین کا احترام کریں گی اور پرامن بقائے باہمی اور بہتر پڑوس کے طور پر مل جل کر رہیں گے ۔
انہوں نے مزید کہا: ہم یہاں اس شعور کے ساتھ جمع ہوئے ہیں کہ دنیا بھر میں مذاہب کے ماننے والوں کے ضمیر پر اثر انداز ہونے میں مذہبی رہنماؤں کا ایک کلیدی کردار ہے، جو دنیا کی آبادی کا تقریباً 80 فیصد ہیں۔ ان کا روحانی اثر ورسوخ مشترکہ انسانی اقدار اور اصولوں کی ترغیب دینے، اور انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی کے تصورات، خاص طور پر نفرت، نسل پرستی، امتیازی سلوک اور علیحدگی جیسے نظریات سے افکار کو محفوظ رکھنے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ سربراہی اجلاس مذہبی قیادت کو اس بات کے امتحان میں ڈال رہا ہے کہ وہ کس حد تک اپنی دعوت کو انسانی اقدار کی صداقت سے ہم آہنگ کر پاتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذہبی قیادت کا کردار صرف وعظ و نصیحت تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ انہیں امن قائم کرنے میں عملی طور پر شراکت کرنی چاہیے، اپنے پیروکاروں کو یہ باور کراتے ہوئے کہ انسانی وقار ہی ان کی تعلیمات کا مرکز ہے۔
ڈاکٹر العیسی نے پرزور انداز میں کہا کہہم جن اصولوں پر ایمان رکھتے ہیں وہ محض نعرے یا رسمی بیانات نہیں، بلکہ مستقل عہد ہیں جو ہمارے خطابات، اقوال اور اعمال میں جھلکنے چاہییں۔ مذہبی ادارے ان اصولوں کی تعلیم و ترغیب کے ذریعے اس بات کو ثابت کریں کہ سچے دینی اصول ہی انسانی فضیلت کی اصل محافظ ہیں۔
انہوں نے اشارہ کیا کہ تاریخ کے اسباق نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہماری دنیا کے امن کے لیے ایک ایسے شعور کی ضرورت ہے جو یہ سمجھے کہ تصادم اور تنازعہ صرف ایسی برائی کو جنم دیتا ہے جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اور اگرچہ اس کے مرتکب افراد شروع میں فتح کی چمک سے دھوکہ کھا جاتے ہیں، لیکن آخر کار وہ ایسی مایوسی کے ساتھ لوٹتے ہیں جو ان کے لیے رسوائی کا داغ بن جاتی ہے اور ان کی تاریخ کے ابواب کو سیاہ کر دیتی ہے، جیسا کہ خدائی انصاف کی طاقت اور اس کی کامل حکمت کا تقاضا ہے۔
سیکرٹری جنرل رابطہ نے عالمی سطح پر جاری جنگوں اور تنازعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا جو دنیا کے امن اور معاشروں کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ آج غزہ پٹی میں عالمی برادری کی آنکھوں اور کانوں کے سامنے جو نسل کشی اور بھوک کا عالم ہے، وہ انسانی حقوق کے اصولوں میں ایک ایسی خطرناک مثال ہے جس کی نظیر ہماری دنیا نے اقوام متحدہ کے عالمی میثاق کے اجراء کے بعد سے نہیں دیکھی۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ صورتحال بین الاقوامی قانون کی ساکھ پر سوال اٹھاتی ہے، کیونکہ اس کے یکجہتی کے میثاق پر عمل نہیں کیا جا رہا، جس سے ان اقوام کے اتحاد کو خطرہ ہے جنہوں نے اپنے تاریخی میثاق کی پاسداری کرتے ہوئے منصفانہ مقاصد کی حمایت کے لیے اپنے اتحاد کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ تجربات نے ثابت کیا ہے کہ مذہبی تنوع کی قیادتیں ”مذہبی سفارت کاری“ میں ایک مؤثر کردار ادا کرتی ہیں، جو کہ ایک تخلیقی سفارت کاری ہے۔ یہ کردار وہ مکالمے، ثالثی اور مصالحت کے ذریعے ادا کرتی ہیں، کیونکہ وہ اپنے روحانی مقام کی وجہ سے ایک اہم اثاثہ رکھتی ہیں، جو انہیں بحرانوں کے خاتمے میں، خاص طور پر اپنے پیروکاروں کو حفاظتی طرز عمل کے بارے میں آگاہ کر کے، مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ آپ نے اس بات پر زور دیا کہ یہ کردار سیاسی راستوں کا متبادل نہیں، بلکہ ان کے لیے ایک معاون ذریعہ ہیں۔
اسی تناظر میں، رابطہ کے سیکرٹری جنرل نے دو اقدامات کا اعلان کیا۔ پہلا اقدام دنیا بھر میں مذہبی تنوع کی قیادتوں کے روحانی اور اخلاقی کردار کو فعال کرنا ہے تاکہ وہ مذاہب پر ایمان رکھنے والے معاشروں اور عوام پر اپنے روحانی اثر و رسوخ کی بنیاد پر تنازعات کے پرامن حل کی کوششوں کی حمایت میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
اس سلسلے میں، ڈاکٹر العیسی نے اس بات کی تصدیق کی کہ رابطہ اس اقدام کے ذیلی اقدامات کا خاکہ مکمل کرنے پر کام کرے گا جو پرامن کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رابطہ نے اپنی ایک اہم ترین بنیاد، یعنی ”مشرق اور مغرب کے درمیان مفاہمت اور امن کے پل تعمیر کرنے“کے اقدام کے ذریعے اس کا آغاز کر دیا ہے، جس کی میزبانی 14 جون 2023 کو نیویارک میں اقوام متحدہ نے کی تھی۔
رابطہ کے سیکرٹری جنرل کے اعلان کے مطابق، دوسرا اقدام مذہبی، نسلی اور ثقافتی تنوع والے ممالک میں اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق تھا۔ اس کا مقصد ان کے جائز حقوق، آزادیوں اور وقار کو یقینی بنانا ہے، کیونکہ ان میں سے بہت سی اقلیتیں پسماندگی کا شکار ہیں، خاص طور پر ایسے قوانین کے نفاذ کی وجہ سے جو ان کی مذہبی شناخت کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس اقدام میں ان اقلیتوں کے لیے ان کے اپنے ممالک میں بقائے باہمی کے پروگرام اور معاون قانونی ڈھانچے تجویز کیے گئے ہیں، جن میں ان کے قومی دساتیر کے مہذب اصولوں سے انحراف کا دانشمندانہ تدارک بھی شامل ہے، جو بعض انتہا پسندانہ قوانین کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
سربراہی کانفرنس کے دوران پانچ علمی نشستیں منعقد ہوئیں۔ پہلی نشست میں ”مذہبی پہلو رکھنے والے تنازعات: اسباب کا تجزیہ اور حل کی راہیں“ کے موضوع پر بحث کی گئی۔ دوسری نشست میں ”تشدد کے مظاہر اور تنازعات کے رجحانات کا مقابلہ کرنے میں مذہبی رہنماؤں کا کردار“ کا جائزہ لیا گیا۔ تیسری نشست میں ”مذہبی سفارت کاری اور منصفانہ پرامن تصفیوں کی کوششوں میں معاون کردار“ پر بات ہوئی۔ چوتھی نشست میں ”مذہبی تنوع کو منظم کرنے میں کامیاب تجربات اور مہارتوں کا تبادلہ“ کا موضوع زیرِ بحث آیا، جبکہ پانچویں نشست میں ”غزہ کا المیہ: بین الاقوامی بے بسی اور انسانی اقدار کی پامالی کا آئینہ“ پر بحث کی گئی۔
کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں دو تاریخی دستاویزات: ”میثاق مکہ مکرمہ“ اور ”اسلامی مذاہب کے درمیان پل قائم کرنے کا چارٹر“ کے مندرجات کی تائید کی گئی۔ یہ دونوں دستاویزات رابطہ عالم اسلامی کی جانب سے مکہ مکرمہ میں امت مسلمہ کے تمام علمائے کرام کے اجماع سے جاری کی گئی تھیں، اور ان کی بین الاقوامی کانفرنسوں کو خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز (ایدہ اللہ ) کی خصوصی سرپرستی حاصل تھی۔ ان دستاویزات میں مذاہب اور ثقافتوں کے پیروکاروں کے درمیان بقائے باہمی اور رواداری کی اقدار کو قائم کرنے، اعتدال پسندی کی ثقافت کو مجسم کرنے والے ایک باشعور تہذیبی بیانیے کو فروغ دینے، ظلم، تصادم اور بلاجواز نفرت کے رویوں کا مقابلہ کرنے، اور مشترکہ انسانی اقدار اور اعلیٰ اصولوں کی بنیاد پر باہمی تعارف، تعاون اور استفادے کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لیے ٹھوس اصول اور کلیدی بنیادیں فراہم کی گئی ہیں۔
شرکاء نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں سربراہی کانفرنس کے لیے ایک مستقل کمیٹی کی تشکیل کی سفارش کی، جس میں ملائیشین وزیراعظم کے دفتر اور رابطہ عالم اسلامی کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی تیسری بین الاقوامی مذہبی رہنماؤں کی سربراہی کانفرنس کے لیے قبل از وقت تیاریوں کی ذمہ دار ہوگی اور روحانی نقطہ نظر سے انسانی معاشروں کو درپیش چیلنجز اور خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک روڈ میپ تیار کرے گی۔
شرکاء نے رابطہ عالم اسلامی کے اس اقدام کی بھی تائید کی جس کا مقصد مذہبی تنوع کی قیادتوں کے روحانی اور اخلاقی کردار کو فعال کرنا ہے، تاکہ وہ تنازعات کے پرامن حل کی حمایت میں اپنا کردار ادا کر سکیں اور مذاہب پر ایمان رکھنے والے معاشروں اور عوام پر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کر سکیں۔
انہوں نے رابطہ کے اس اقدام کی بھی تائید کی جو مذہبی، نسلی اور ثقافتی تنوع والے ممالک میں اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق ہے، جس کی تفصیل عزت مآب سیکرٹری جنرل کے مذکورہ بالا خطاب میں بیان کی گئی ہے۔
آخر میں، شرکاء نے اس سربراہی کانفرنس کو کامیاب بنانے پر وزرات عظمی ملائیشیا کے دفتر اور رابطہ عالم اسلامی کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ اگلی سربراہی کانفرنس بہتر بین الاقوامی حالات میں منعقد ہوگی۔